قسط 3 عنوان: تعلیم کا اصل مقصد: صرف روزگار یا کردار سازی؟VOICE OF EDUCATION
ہم آج جس تعلیمی نظام سے وابستہ ہیں، وہ ہمیں صرف ایک اچھا ملازم بنانے پر زور دیتا ہے۔ لیکن قرآن و سنت ہمیں ایک مکمل انسان بننے کا سبق دیتے ہیں، ایسا انسان جو علم، عمل، اخلاق اور خدمت میں بہترین ہو
---
1. تعلیم صرف روزگار نہیں، شعور ہے
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
"قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ"
(کہو: کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں؟)
— [الزمر: 9]
یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ علم کا اصل فائدہ شعور اور فہم میں ہے، نہ کہ صرف ڈگری میں۔
---
2. تعلیم کا تعلق صرف دماغ سے نہیں، دل سے بھی ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"إنما بُعِثتُ لأتمم مكارم الأخلاق"
(مجھے صرف اس لیے بھیجا گیا کہ میں اخلاقِ حسنہ کو مکمل کر دوں)
— [مسند احمد]
تعلیم کا اصل مقصد اخلاق کی تعمیر ہے، صرف معلومات کا انبار نہیں۔
---
3. تعلیم کا اثر معاشرے پر ہونا چاہیے
قرآن بار بار "امر بالمعروف" اور "نہی عن المنکر" کی دعوت دیتا ہے — یعنی سیکھنے کے بعد معاشرے میں بھلائی پھیلانا۔
---
4. کردار اور اقدار سب سے اہم ہیں
حضرت علیؓ نے فرمایا:
"علم دولت سے بہتر ہے، علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اور دولت کو تمہیں حفاظت کرنی پڑتی ہے"
یعنی اصل دولت علم ہے، مگر وہ علم جو کردار پیدا کرے۔
---
نتیجہ:
ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو صرف نوکری دینے والا نظام نہیں، بلکہ انسان بنانے والا نظام بنانا ہوگا۔ ہمیں تعلیم کو قرآن و سنت کے مطابق اخلاق، شعور، اور خدمت سے جوڑنا ہوگا — تب جا کر ہم ایک صالح اور باکردار امت تیار کر سکیں گے۔
---
کمنٹ سیکشن
کیا آپ متفق ہیں کہ تعلیم کا مقصد صرف روزگار نہیں بلکہ کردار سازی بھی ہونا چاہیے؟
اپنی قیمتی رائے نیچے کمنٹ میں ضرور لکھیں، کیونکہ آپ کی سوچ کئی دوسروں کے لیے روشنی بن سکتی ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں