SCHOOL VS LIFE قسط نمبر 1 اسکول بمقابلہ زندگی


 


سکول بمقابلہ زندگی – ایک آنکھیں کھول دینے والی حقیقت


تحریر: Shoaib Nadwi | VOICE OF EDUCATION


ہم سب نے اسکولوں میں برسوں گزارے — کتابوں کے بوجھ تلے، امتحان کے دباؤ میں، اور نمبرات کی دوڑ میں۔ مگر جب ہم عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں، تو محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کا سب سے بڑا استاد اسکول نہیں، خود زندگی ہے۔

---

1. اسکول سبق دیتا ہے، پھر امتحان لیتا ہے۔

زندگی امتحان لیتی ہے، پھر سبق سکھاتی ہے۔

اسکول میں غلطی کی گنجائش کم ہوتی ہے،

مگر زندگی میں غلطی ہی سب سے بڑا استاد بنتی ہے۔

---

2. اسکول میں نصاب طے ہوتا ہے، زندگی میں نہیں۔

اسکول میں ہر چیز ایک ترتیب سے ہوتی ہے،

لیکن زندگی غیر متوقع ہے — کبھی ہنسی، کبھی آنسو، کبھی خوشی، کبھی صبر۔

اصل سیکھنے کا عمل وہیں شروع ہوتا ہے جہاں اسکول ختم ہوتا ہے۔

---

3. اسکول میں نمبر اہم ہوتے ہیں، زندگی میں اقدار۔

ڈگری ہر کسی کے پاس ہو سکتی ہے،

لیکن اخلاق، دیانت، ہمدردی — یہ زندگی کے اصل ہنر ہیں

جو کسی اسکول کی کتاب میں نہیں ملتے۔


---


4. اسکول سکھاتا ہے مقابلہ، زندگی سکھاتی ہے تعاون۔


اسکول میں کامیابی کا مطلب ہوتا ہے: دوسروں سے آگے نکلنا

لیکن زندگی سکھاتی ہے: دوسروں کو ساتھ لے کر چلنا ہی اصل کامیابی ہے۔


---


نتیجہ:


سکول ہمیں لکھنا، پڑھنا اور سوچنا سکھاتا ہے،

مگر زندگی ہمیں جینا، سنبھلنا اور آگے بڑھنا سکھاتی ہے۔

دونوں لازم و ملزوم ہیں،

مگر سچا علم وہی ہے جو کردار میں جھلکے۔

---

اگر آپ چاہیں کہ تعلیم صرف کتابوں تک محدود نہ رہے

تو اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں۔

یہی ہے — VOICE OF EDUCATION.

School vs Life, تعلیم, Shoaib Nadwi, Voice of Education

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

والدین کا احترام اور کامیابی کا راز چھٹی قسط VOICE OF EDUCATION

سوشل میڈیا کا صحیح استعمال نعمت یا زحمت VOICE OF EDUCATION (قسط 7)

تعلیم کی حقیقت قسط 2 – طلبہ اور اساتذہ کے لیے ایک اہم پیغام

محنت، دعا اور توکل – کامیابی کی کنجی 10 ویں قسط VOICE OF EDUCATION

جدید دور میں استاد کا کردار قسط 15 VOICE OF EDUCATION

تعلیمی نظام میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان VOICE OF EDUCATION - قسط 12

اسلام میں تعلیم کی اہمیت:چوتھی قسط VOICE OF EDUCATION

: تعلیم برائے انسانیت – نفرت سے محبت تک قسط 8 VOICE OF EDUCATION

قسط 3 عنوان: تعلیم کا اصل مقصد: صرف روزگار یا کردار سازی؟VOICE OF EDUCATION