تعلیمی نظام میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان VOICE OF EDUCATION - قسط 12


تخلیقی صلاحیت انسان کی وہ فطری خوبی ہے جو اسے سوچنے، سمجھنے، اور کچھ نیا کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ صلاحیتیں فرد کو نہ صرف ذاتی ترقی کے راستے پر گامزن کرتی ہیں بلکہ پورے معاشرے کو نئی راہوں سے روشناس کراتی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے موجودہ تعلیمی نظام میں تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

روایتی نظام کی جکڑ بندیاں

ہمارا تعلیمی نظام زیادہ تر نمبروں، امتحانات، اور رٹے بازی پر مبنی ہے۔ طلبہ کو صرف اتنا سکھایا جاتا ہے کہ وہ سبق یاد کریں اور امتحان میں اچھے نمبر لائیں۔ اس عمل میں ان کے اندر سوال کرنے، تحقیق کرنے، اور مختلف زاویوں سے سوچنے کی صلاحیت ختم ہوتی جاتی ہے۔ اسکولوں میں ایک جیسے سوالات، ایک جیسے جوابات، اور ایک جیسے انداز سے پڑھانے کا طریقہ تخلیقیت کا دشمن بن چکا ہے۔

اساتذہ کا کردار

اکثر اساتذہ خود بھی تخلیقی تربیت سے محروم ہوتے ہیں۔ جب استاد خود تخلیقی نہ ہو تو وہ شاگرد میں کیسے یہ صلاحیت پیدا کر سکتا ہے؟ ہمارے اساتذہ کی تربیت میں بھی تخلیقی تدریس پر توجہ نہیں دی جاتی، بلکہ اُنہیں محض نصاب مکمل کرنے، امتحانی تیاری کرانے، اور نتائج بہتر بنانے کی ہدایات دی جاتی ہیں۔

طلبہ کی دلچسپی ختم کیوں ہوتی ہے؟

جب ایک بچہ اسکول میں داخل ہوتا ہے، تو وہ تجسس، سوالات، اور جستجو سے بھرپور ہوتا ہے۔ لیکن چند سالوں میں یہی بچہ بےزار، خاموش، اور خود پر شک کرنے والا طالب علم بن جاتا ہے۔ اس کی سوچنے کی صلاحیت کو دبایا جاتا ہے، اس کے سوالات کو نظر انداز کیا جاتا ہے، اور اسے سبق رٹنے والی مشین میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

نتیجہ کیا نکلتا ہے؟

ایسے افراد تیار ہوتے ہیں جو صرف ہدایات پر عمل کر سکتے ہیں، لیکن خود کوئی فیصلہ کرنے، نیا راستہ تلاش کرنے، یا کسی چیلنج کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ قومیں تخلیقی ذہنوں سے بنتی ہیں، لیکن ہمارا تعلیمی نظام صرف ملازمین پیدا کر رہا ہے، قائدین نہیں۔

تبدیلی کیسے ممکن ہے؟

1. نصاب میں اصلاحات: ایسی سرگرمیاں شامل کی جائیں جو طلبہ کو سوچنے، سوال کرنے، اور مسائل کا حل نکالنے کی ترغیب دیں۔

2. اساتذہ کی تربیت: اساتذہ کو تخلیقی تدریسی طریقوں پر خصوصی تربیت دی جائے۔

3. امتحانی نظام کی تبدیلی: رٹے بازی کے بجائے تجزیہ، فہم اور تخلیقی تحریر کو اہمیت دی جائے۔

4. آزاد ماحول: اسکولز اور کالجز میں ایسا ماحول ہو جہاں طلبہ کو اپنی رائے دینے، سوالات کرنے اور نئے آئیڈیاز پیش کرنے کی آزادی ہو۔

5. ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال: طلبہ کو ڈیجیٹل اوزاروں، تحقیقاتی وسائل، اور تخلیقی ایپس کے ذریعے علم حاصل کرنے کا موقع دیا جائے۔

آخری بات

اگر ہم واقعی ایک ترقی یافتہ، بیدار اور تخلیقی قوم بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے تعلیمی نظام کو تخلیقی بنانا ہوگا۔ ہمیں سوچنے والے، محسوس کرنے والے، اور نئے راستے بنانے والے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے نصاب، اساتذہ، اور تعلیمی پالیسیوں کو تخلیقی جہت دیں۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

SCHOOL VS LIFE قسط نمبر 1 اسکول بمقابلہ زندگی

والدین کا احترام اور کامیابی کا راز چھٹی قسط VOICE OF EDUCATION

سوشل میڈیا کا صحیح استعمال نعمت یا زحمت VOICE OF EDUCATION (قسط 7)

تعلیم کی حقیقت قسط 2 – طلبہ اور اساتذہ کے لیے ایک اہم پیغام

محنت، دعا اور توکل – کامیابی کی کنجی 10 ویں قسط VOICE OF EDUCATION

جدید دور میں استاد کا کردار قسط 15 VOICE OF EDUCATION

اسلام میں تعلیم کی اہمیت:چوتھی قسط VOICE OF EDUCATION

: تعلیم برائے انسانیت – نفرت سے محبت تک قسط 8 VOICE OF EDUCATION

قسط 3 عنوان: تعلیم کا اصل مقصد: صرف روزگار یا کردار سازی؟VOICE OF EDUCATION