امتحان میں صرف نمبرات یا حقیقی علم قسط 13 VOICE OF EDUCATION
امتحان میں صرف نمبرات یا حقیقی علم؟
VOICE OF EDUCATION
تعلیمی نظام کا بنیادی مقصد انسان کو علم سے آراستہ کرنا، اس کی سوچ کو وسعت دینا اور اسے ایک بہتر انسان بنانا ہونا چاہیے۔ مگر آج ہمارے معاشرے میں تعلیم کا معیار صرف "امتحانی نمبرات" پر منحصر ہو چکا ہے۔ طلبہ، اساتذہ، اور والدین سب کی توجہ صرف اچھے گریڈز اور رینکنگ پر مرکوز ہوتی جا رہی ہے، جبکہ حقیقی علم، سمجھ بوجھ اور عملی زندگی کی تیاری کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔
نمبرات کی دوڑ
بیشتر تعلیمی اداروں میں طلبہ کو صرف امتحان پاس کرنے، رٹا لگانے اور زیادہ نمبر حاصل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ نتیجتاً، طالب علم رٹے بازی کا ماہر تو بن جاتا ہے، مگر علم و فہم سے محروم رہتا ہے۔ ایسے امتحانات جہاں صرف یادداشت کو پرکھا جاتا ہے، وہاں تخلیقی صلاحیتیں، تنقیدی سوچ اور حقیقی فہم کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
حقیقی علم کیا ہے؟
حقیقی علم وہ ہے جو انسان کے کردار، اس کی سوچ، اور اس کے عمل کو بہتر بنائے۔ ایسا علم جو اسے صرف ایک اچھی ملازمت نہیں بلکہ ایک اچھا انسان، باشعور شہری، اور نفع بخش فرد بنائے۔ جب علم صرف نمبرات کے لیے حاصل کیا جائے تو اس کا اثر وقتی اور سطحی ہوتا ہے، مگر جب علم کو زندگی کو بہتر بنانے کے لیے حاصل کیا جائے تو اس کا اثر دیرپا اور گہرا ہوتا ہے۔
امتحانات کا اصل مقصد
امتحان دراصل طالب علم کی فہم، سوچ، اور سیکھنے کی صلاحیت کو جانچنے کا ذریعہ ہونا چاہیے، نہ کہ صرف یادداشت کا۔ ایک اچھا امتحان وہی ہے جو طلبہ کو سوچنے، سمجھنے، اور اپنی رائے دینے پر مجبور کرے۔ اس سے طلبہ نہ صرف کتابی علم سیکھتے ہیں بلکہ زندگی میں مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرتے ہیں۔
اساتذہ اور والدین کا کردار
اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبہ کی رہنمائی صرف اچھے نمبرات کی طرف نہ کریں بلکہ ان میں سیکھنے کا شوق، سوال کرنے کی جستجو، اور حقیقت کو سمجھنے کا جذبہ پیدا کریں۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ صرف رپورٹ کارڈ کے نمبروں پر خوش نہ ہوں بلکہ اپنے بچوں کی شخصیت اور سیکھنے کی دلچسپی پر نظر رکھیں۔
نتیجہ
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تعلیم کو محض نمبرات کی قید سے نکال کر حقیقی علم، فہم، اور شعور کی طرف لے جائیں۔ امتحانات کو اصلاح کا ذریعہ بنائیں، نہ کہ خوف اور دباؤ کا۔ جب تک ہم تعلیم کو اس کے اصل مقصد کی طرف نہیں لوٹائیں گے، ہم صرف ڈگری یافتہ لوگ تو پیدا کرتے رہیں گے، مگر باشعور انسان نہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں